انسانوں کے درمیان فکرونظر کا اختلاف پایا جانا کوئی بڑی بات نہیں البتہ اختلاف کو عقائد کی حیثیت عطا کر دینا اور تشریح و تعبیر کی بنیاد پر مستقل فرقوں کا وجود میں آ جانا انتہائی قابل مذمت عمل ہے ۔ہمارے بڑے بوڑھے جنھوں نے دین کو ایک مجموعہء اضداد کے طور پر قبول کر رکھا ہے وہ دل و دماغ کو اس لیے حرکت دینا نہیں چاہتے مبادا انکے پسندیدہ اسلام کی بنیاد ہی نہ ہل جائے ۔ دوسری طرف ہماری نئی نسل جو انٹرنیٹ کے عہد میں جیتی ہے وہ سخت کنفیوژن کا شکار ہے ۔ اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اپنے متبعین کی جو متحدہ امت چھوڑی تھی وہ آگے چل کر شیعہ، سنی، دیو بندی، وہابی،اسماعیلی، اباضی جیسی شاخوں میں کیونکر منقسم ہو گئ ۔ ظلم یہ ہے کہ اسلام کے متحدہ پیغمبرانہ قالب کے غیاب پر آج ہمارے دل افسردہ اور آنکھیں نمناک بھی نہیں ۔ ہر گروہ بڑی بے شرمی اور کمال ہٹ دھرمی سے اپنے آپ کو حق ثابت کرنے پر بضد ہے ۔ منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک